EN हिंदी
کیا کروں شرح خستہ جانی کی | شیح شیری
kya karun sharh KHasta-jaani ki

غزل

کیا کروں شرح خستہ جانی کی

میر تقی میر

;

کیا کروں شرح خستہ جانی کی
میں نے مر مر کے زندگانی کی

حال بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی

سب کو جانا ہے یوں تو پر اے صبر
آتی ہے اک تری جوانی کی

تشنہ لب مر گئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بوند پانی کی

بیت بحثی سمجھ کے کر بلبل
دھوم ہے میری خوش زبانی کی

جس سے کھوئی تھی نیند میرؔ نے کل
ابتدا پھر وہی کہانی کی