کیا کروں شرح خستہ جانی کی
میں نے مر مر کے زندگانی کی
حال بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی
سب کو جانا ہے یوں تو پر اے صبر
آتی ہے اک تری جوانی کی
تشنہ لب مر گئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بوند پانی کی
بیت بحثی سمجھ کے کر بلبل
دھوم ہے میری خوش زبانی کی
جس سے کھوئی تھی نیند میرؔ نے کل
ابتدا پھر وہی کہانی کی
غزل
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
میر تقی میر