EN हिंदी
خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی | شیح شیری
KHarabi kuchh na puchho mulkat-e-dil ki imarat ki

غزل

خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی

میر تقی میر

;

خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی
غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی

نگاہ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی
حلاوت مے کی اور بنیاد میخانے کی غارت کی

سحر گہ میں نے پوچھا گل سے حال زار بلبل کا
پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی

جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طور کو ہم دم
اسی آتش کے پر کالے نے ہم سے بھی شرارت کی

نزاکت کیا کہوں خورشید رو کی کل شب مہ میں
گیا تھا سائے سائے باغ تک تس پر حرارت کی

نظر سے جس کی یوسف سا گیا پھر اس کو کیا سوجھے
حقیقت کچھ نہ پوچھو پیر کنعاں کی بصارت کی

ترے کوچے کے شوق طوف میں جیسے بگولا تھا
بیاباں میں غبار میرؔ کی ہم نے زیارت کی