یکسو کشادہ روی پر چیں نہیں جبیں بھی
ہم چھوڑی مہر اس کی کاش اس کو ہووے کیں بھی
آنسو تو تیرے دامن پونچھے ہے وقت گریہ
ہم نے نہ رکھی منہ پر اے ابر آستیں بھی
کرتا نہیں عبث تو پارہ گلو فغاں سے
گزرے ہے پار دل کے اک نالۂ حزیں بھی
ہوں اہتزار میں میں آئینہ رو شتاب آ
جاتا ہے ورنہ غافل پھر دم تو واپسیں بھی
سینے سے تیر اس کا جی کو تو لیتا نکلا
پر ساتھوں ساتھ اس کے نکلی اک آفریں بھی
ہر شب تری گلی میں عالم کی جان جا ہے
آگے ہوا ہے اب تک ایسا ستم کہیں بھی
شوخی جلوہ اس کی تسکین کیونکے بخشے
آئینوں میں دلوں کے جو ہے بھی پھر نہیں بھی
گیسو ہی کچھ نہیں ہے سنبل کی آفت اس کا
ہیں برق خرمن گل رخسار آتشیں بھی
تکلیف نالہ مت کر اے درد دل کہ ہوں گے
رنجیدہ راہ چلتے آزردہ ہم نشیں بھی
کس کس کا داغ دیکھیں یا رب غم بتاں میں
رخصت طلب ہے جاں بھی ایمان اور دیں بھی
زیر فلک جہاں ٹک آسودہ میرؔ ہوتے
ایسا نظر نہ آیا اک قطعۂ زمیں بھی
غزل
یکسو کشادہ روی پر چیں نہیں جبیں بھی
میر تقی میر