EN हिंदी
کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی | شیح شیری
kal mir ne kya kiya ki mai ke liye betabi

غزل

کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی

میر تقی میر

;

کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی
آخر کو گرو رکھا سجادۂ محرابی

جاگا ہے کہیں وہ بھی شب مرتکب مے ہو
یہ بات سجھاتی ہے ان آنکھوں کی بے خوابی

کیا شہر میں گنجائش مجھ بے سر و پا کو ہو
اب بڑھ گئے ہیں میرے اسباب کم اسبابی

دن رات مری چھاتی جلتی ہے محبت میں
کیا اور نہ تھی جاگا یہ آگ جو یاں دابی

سو ملک پھرا لیکن پائی نہ وفا اک جا
جی کھا گئی ہے میرا اس جنس کی نایابی

خوں بستہ نہ کیوں پلکیں ہر لحظہ رہیں میری
جاتے نہیں آنکھوں سے لب یار کے عنابی

جنگل ہی ہرے تنہا رونے سے نہیں میرے
کوہوں کی کمر تک بھی جا پہنچی ہے سیرابی

تھے ماہ وشاں کل جو ان کوٹھوں پہ جلوے میں
ہے خاک سے آج ان کی ہر صحن میں مہتابی

کل میرؔ جو یاں آیا طور اس کا بہت بھایا
وہ خشک لبی تس پر جامہ گلے میں آبی