EN हिंदी
خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو | شیح شیری
KHat likh ke koi sada na usko malul ho

غزل

خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو

میر تقی میر

;

خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو
ہم تو ہوں بد گمان جو قاصد رسول ہو

چاہوں تو بھر کے کولی اٹھا لوں ابھی تمہیں
کیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہو

سرمہ جو نور بخشے ہے آنکھوں کو خلق کی
شاید کہ راہ یار کی ہی خاک دھول ہو

جاویں نثار ہونے کو ہم کس بساط پر
اک نیم جاں رکھیں ہیں سو وہ جب قبول ہو

ہم ان دنوں میں لگ نہیں پڑتے ہیں صبح و شام
ورنہ دعا کریں تو جو چاہیں حصول ہو

دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو

ناکام اس لیے ہو کہ چاہو ہو سب کچھ آج
تم بھی تو میرؔ صاحب و قبلہ عجول ہو