کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں
تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں
کیا آگ دے کے طور کو کی ترک سرکشی
اس شعلے کی وہی ہیں شرارت کی بانیاں
صحبت رکھا کیا وہ سفیہ و ضلال سے
دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ دانیاں
ہم سے تو کینے ہی کی ادائیں چلی گئیں
بے لطفیاں یہی یہی نا مہربانیاں
تلوار کے تلے ہی گیا عہد انبساط
مر مر کے ہم نے کاٹی ہیں اپنی جوانیاں
گالی سوائے مجھ سے سخن مت کیا کرو
اچھی لگے ہیں مجھ کو تری بد زبانیاں
غیروں ہی کے سخن کی طرف گوش یار تھے
اس حرف ناشنو نے ہماری نہ مانیاں
یہ بے قراریاں نہ کبھو ان نے دیکھیاں
جاں کاہیاں ہماری بہت سہل جانیاں
مارا مجھے بھی سان کے غیروں میں ان نے میرؔ
کیا خاک میں ملائیں مری جاں فشانیاں
غزل
کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں
میر تقی میر