EN हिंदी
کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا | شیح شیری
kya kahun kaisa sitam ghaflat se mujh par ho gaya

غزل

کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا

میر تقی میر

;

کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا
قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا

بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہوکے گزرا رو گیا

کچھ خطرناکی طریق عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہرو اس راہ ہو کر جو گیا

مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا

میرؔ ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آ کر بال اپنے دھو گیا