EN हिंदी
اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں | شیح شیری
uske kuche se jo uTh ahl-e-wafa jate hain

غزل

اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں

میر تقی میر

;

اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں
تا نظر کام کرے رو بقفا جاتے ہیں

متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتش دل
ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں

وقت خوش ان کا جو ہم بزم ہیں تیرے ہم تو
در و دیوار کو احوال سنا جاتے ہیں

جائے گی طاقت پا آہ تو کریے گا کیا
اب تو ہم حال کبھو تم کو دکھا جاتے ہیں

ایک بیمار جدائی ہوں میں آپھی تس پر
پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں

غیر کی تیغ زباں سے تری مجلس میں تو ہم
آ کے روز ایک نیا زخم اٹھا جاتے ہیں

عرض وحشت نہ دیا کر تو بگولے اتنی
اپنی وادی پہ کبھو یار بھی آ جاتے ہیں

میرؔ صاحب بھی ترے کوچے میں شب آتے ہیں لیک
جیسے دریوزہ گری کرنے گدا جاتے ہیں