EN हिंदी
ملتے نہیں ہیں جب ہمیں غم خوار ایک دو | شیح شیری
milte nahin hain jab hamein gham-KHwar ek do

غزل

ملتے نہیں ہیں جب ہمیں غم خوار ایک دو

صدف جعفری

;

ملتے نہیں ہیں جب ہمیں غم خوار ایک دو
پھرتے ہیں ہاتھ میں لیے اخبار ایک دو

شوریدگئ سر کو میں روؤں گی تا بہ کے
لا کر مجھے بھی دے کوئی دیوار ایک دو

آنکھوں میں لا کے دیکھ تبسم کی روشنی
جیتے ہیں تیری چشم کے بیمار ایک دو

سمجھو ہے خوش نصیب وہ سارے جہان میں
لائے جو ڈھونڈ کر کوئی غم خوار ایک دو

پھرتے ہیں میر خار کوئی پوچھتا نہیں
غالب بھی بکتے ہیں سر بازار ایک دو

مانوس غم سے خود کو صدفؔ کر کے جی ذرا
ہر ہر قدم پہ ہیں پئے آزار ایک دو