ملتے نہیں ہیں جب ہمیں غم خوار ایک دو
پھرتے ہیں ہاتھ میں لیے اخبار ایک دو
شوریدگئ سر کو میں روؤں گی تا بہ کے
لا کر مجھے بھی دے کوئی دیوار ایک دو
آنکھوں میں لا کے دیکھ تبسم کی روشنی
جیتے ہیں تیری چشم کے بیمار ایک دو
سمجھو ہے خوش نصیب وہ سارے جہان میں
لائے جو ڈھونڈ کر کوئی غم خوار ایک دو
پھرتے ہیں میر خار کوئی پوچھتا نہیں
غالب بھی بکتے ہیں سر بازار ایک دو
مانوس غم سے خود کو صدفؔ کر کے جی ذرا
ہر ہر قدم پہ ہیں پئے آزار ایک دو

غزل
ملتے نہیں ہیں جب ہمیں غم خوار ایک دو
صدف جعفری