EN हिंदी
ملتا نہیں کوئی بھی خریدار عشق میں | شیح شیری
milta nahin koi bhi KHaridar ishq mein

غزل

ملتا نہیں کوئی بھی خریدار عشق میں

صلاح الدین ندیم

;

ملتا نہیں کوئی بھی خریدار عشق میں
رسوا ہوئے ہیں بر سر بازار عشق میں

منزل ملی نہ مرحلۂ دل ہی طے ہوا
دشت جنوں کو جانئے دیوار عشق میں

اس نافۂ نگاہ سے پاگل ہوئے تو کیا
زنجیر ہے یہ درد کا آزاد عشق میں

اب تک ترے خیال سے نمناک ہے یہ آنکھ
صرف اس قدر ہوا ہوں گنہ گار عشق میں

فریاد کر رہا ہوں جدائی کے دشت میں
کوئی نہیں شریک غم یار عشق میں

میں کنج عافیت میں رہا عمر بھر مگر
خود سے ہوا ہوں بر سر پیکار عشق میں

ہاتھ آ گئی کلید طلسم نگاہ کیا
کھلنے لگے ہیں حسن کے اسرار عشق میں

حیرانیوں کے زخم کا مرہم کہاں ندیمؔ
دل سحر‌ درد سے ہوا بیدار عشق میں