EN हिंदी
ملتا ہے موج موج مجھے تو کبھی کبھی | شیح شیری
milta hai mauj mauj mujhe tu kabhi kabhi

غزل

ملتا ہے موج موج مجھے تو کبھی کبھی

ناصر چودھری

;

ملتا ہے موج موج مجھے تو کبھی کبھی
ابھرا ہے تیرا عکس لب جو کبھی کبھی

پاتے ہیں کچھ گلاب ٹھکانوں میں پرورش
آتی ہے پتھروں سے بھی خوشبو کبھی کبھی

یہ بھی ہوا کہ آنکھ بھی پتھرا گئی مری
پلکوں پہ جم گئے مرے آنسو کبھی کبھی

رکھ صبح و شام شانۂ تدبیر ہاتھ میں
حالات کے بکھرتے ہیں گیسو کبھی کبھی

یہ بھی ہے اک ستم تری قربت کے باوجود
ملتا نہیں سکوں کسی پہلو کبھی کبھی

بھٹکی مری نگاہ بھی تیری تلاش میں
آنسو بنے ہیں آنکھ میں آہو کبھی کبھی

میں سنگ دل نہیں ہوں مگر اس کے باوجود
چلتا ہے مجھ پہ حسن کا جادو کبھی کبھی

شبنم بہ دوش آ کے مجھے حوصلہ بھی دے
باد صبا کی طرح مجھے چھو کبھی کبھی

ناصرؔ مری غزل کو بہاروں کا بانکپن
دیتی ہے اس کی جنبش ابرو کبھی کبھی