ملوں کے شہر میں گھٹتا ہوا دن سوچتا ہوگا
دھوئیں کو جیتنے والوں کا سورج دوسرا ہوگا
اگر مر کر پھر اٹھنا ہے تو مرنے کی خوشی کیا ہے
بدن کھونے کا غم جینے کی خوشیوں سے سوا ہوگا
سنا ہے یہ زمیں اڑتی پھرے گی روئی کی صورت
تماشا کرنے والا ہی تماشا دیکھتا ہوگا
میں چڑیوں کو الجھتے دیکھ کر لڑتا سمجھتا ہوں
مگر سچائی کیا ہے یہ انہیں سے پوچھنا ہوگا
تمہارا جسم میری آگ میں تپ کر نکھرتا ہے
مگر اک روز میرا جسم ٹھنڈا پڑ گیا ہوگا
مجھے خوشبو لپیٹے جسم کچھ اچھے نہیں لگتے
مگر اس کو مرا خالی بدن بھی کاٹتا ہوگا
غزل
ملوں کے شہر میں گھٹتا ہوا دن سوچتا ہوگا
فضل تابش