EN हिंदी
ملو تو ایسے اندھیروں کو بھی پتہ نہ لگے | شیح شیری
milo to aise andheron ko bhi pata na lage

غزل

ملو تو ایسے اندھیروں کو بھی پتہ نہ لگے

عشرت کرتپوری

;

ملو تو ایسے اندھیروں کو بھی پتہ نہ لگے
چلو تو ایسے کے جسموں میں فاصلہ نہ لگے

میں آج گاؤں میں چھوڑے تو جا رہا ہوں تمہیں
دعا کرو کہ مجھے شہر کی ہوا نہ لگے

خدا وہ وقت نہ لائے ہمارے بچوں پر
کہ جس گھڑی انہیں ماؤں کی بھی دعا نہ لگے

میں اس کا ذکر کسی اور سے نہیں کرتا
کہیں یہ میرا رویہ اسے برا نہ لگے

یہ طے کیا ہے کہ ایسا فسانہ لکھوں گا
وہ بے وفا کسی جملے سے بے وفا نہ لگے

بٹھا گیا تھا کوئی ایسے پیڑ کے نیچے
کہ جس کا ایک بھی پتہ مجھے ہرا نہ لگے

عطا کیے ہیں یوں ہی اس نے رت جگے عشرتؔ
یہ زندگی مجھے خوابوں کا سلسلہ نہ لگے