ملنے والے کہاں کہاں سے ملے
موت کو زندگی جہاں سے ملے
ایسا خوش رنگ پھول ہے اک تو
تیرا سانی نا گلستاں سے ملے
ڈوب جا عشق کے سمندر میں
راستے دل کے تو وہاں سے ملے
تو خلوص و ادب کا پیکر ہے
اب دعا تجھ کو ہر زباں سے ملے
باب ست رنگی تجھ کو دے آئی
رنگ جب تیرا آسماں سے ملے
بھول بیٹھا ہے وہ ہمیں لیکن
یاد اس کی تو ہر فغاں سے ملے
کل اسے شک تھا رینوؔ منزل کا
آج ہر شخص کارواں سے ملے
غزل
ملنے والے کہاں کہاں سے ملے
رینو ورما