EN हिंदी
ملنے والے کہاں کہاں سے ملے | شیح شیری
milne wale kahan kahan se mile

غزل

ملنے والے کہاں کہاں سے ملے

رینو ورما

;

ملنے والے کہاں کہاں سے ملے
موت کو زندگی جہاں سے ملے

ایسا خوش رنگ پھول ہے اک تو
تیرا سانی نا گلستاں سے ملے

ڈوب جا عشق کے سمندر میں
راستے دل کے تو وہاں سے ملے

تو خلوص و ادب کا پیکر ہے
اب دعا تجھ کو ہر زباں سے ملے

باب ست رنگی تجھ کو دے آئی
رنگ جب تیرا آسماں سے ملے

بھول بیٹھا ہے وہ ہمیں لیکن
یاد اس کی تو ہر فغاں سے ملے

کل اسے شک تھا رینوؔ منزل کا
آج ہر شخص کارواں سے ملے