ملنے کی ہر آس کے پیچھے ان دیکھی مجبوری تھی
راہ میں دشت نہیں پڑتا تھا چار گھروں کی دوری تھی
جذبوں کا دم گھٹنے لگا ہے لفظوں کے انبار تلے
پہلے نشاں زد کر لینا تھا جتنی بات ضروری تھی
تیری شکل کے ایک ستارے نے پل بھر سرگوشی کی
شاید ماہ و سال وفا کی بس اتنی مزدوری تھی
پیار گیا تو کیسے ملتے رنگ سے رنگ اور خواب سے خواب
ایک مکمل گھر کے اندر ہر تصویر ادھوری تھی
ایک غزال کو دور سے دیکھا اور غزل تیار ہوئی
سہمے سہمے سے لفظوں میں ہلکی سی کستوری تھی
غزل
ملنے کی ہر آس کے پیچھے ان دیکھی مجبوری تھی
غلام محمد قاصر