EN हिंदी
ملی ہواؤں میں اڑنے کی وہ سزا یارو | شیح شیری
mili hawaon mein uDne ki wo saza yaro

غزل

ملی ہواؤں میں اڑنے کی وہ سزا یارو

وسیم بریلوی

;

ملی ہواؤں میں اڑنے کی وہ سزا یارو
کہ میں زمین کے رشتوں سے کٹ گیا یارو

وہ بے خیال مسافر میں راستہ یارو
کہاں تھا بس میں مرے اس کو روکنا یارو

مرے قلم پہ زمانے کی گرد ایسی تھی
کہ اپنے بارے میں کچھ بھی نہ لکھ سکا یارو

تمام شہر ہی جس کی تلاش میں گم تھا
میں اس کے گھر کا پتہ کس سے پوچھتا یارو

جو بے شمار دلوں کی نظر میں رہتا تھا
وہ اپنے بچوں کو اک گھر نہ دے سکا یارو

جناب میرؔ کی خود غرضیوں کے صدقے میں
میاں وسیمؔ کے کہنے کو کیا بچا یارو