EN हिंदी
ملے جو ناقۂ وحشت کو سارباں کوئی | شیح شیری
mile jo naqa-e-wahshat ko sarban koi

غزل

ملے جو ناقۂ وحشت کو سارباں کوئی

شاہدہ حسن

;

ملے جو ناقۂ وحشت کو سارباں کوئی
دکھاؤں قافلۂ خواب کا نشاں کوئی

خموشیوں ہی سے مشروط ہے جنم میرا
سو میری راکھ سے اٹھتا نہیں دھواں کوئی

خسارہ اور ہی ہوتا تھا بے گھری کا مگر
مجھے مکان میں رکھتا ہے بے مکاں کوئی

کسی سے ہونے نہ ہونے کے درمیاں ہو جو ربط
وہیں تو ربط میں آتا ہے درمیاں کوئی

سراغ دے کے مجھے میری بے زبانی کا
مجھی میں آن بسا مجھ سا بے زباں کوئی

تو میرے عکس کو میزان آئنہ میں نہ تول
اٹھا رہا ہے ابھی میری کرچیاں کوئی

ترے خیال کی آبادیاں چھپاتی ہوں
کہ مجھ سے چھین نہ لے میری بستیاں کوئی