ملے جو ناقۂ وحشت کو سارباں کوئی
دکھاؤں قافلۂ خواب کا نشاں کوئی
خموشیوں ہی سے مشروط ہے جنم میرا
سو میری راکھ سے اٹھتا نہیں دھواں کوئی
خسارہ اور ہی ہوتا تھا بے گھری کا مگر
مجھے مکان میں رکھتا ہے بے مکاں کوئی
کسی سے ہونے نہ ہونے کے درمیاں ہو جو ربط
وہیں تو ربط میں آتا ہے درمیاں کوئی
سراغ دے کے مجھے میری بے زبانی کا
مجھی میں آن بسا مجھ سا بے زباں کوئی
تو میرے عکس کو میزان آئنہ میں نہ تول
اٹھا رہا ہے ابھی میری کرچیاں کوئی
ترے خیال کی آبادیاں چھپاتی ہوں
کہ مجھ سے چھین نہ لے میری بستیاں کوئی

غزل
ملے جو ناقۂ وحشت کو سارباں کوئی
شاہدہ حسن