ملے ہیں درد ہی مجھ کو محبتوں کے عوض
صلے میں ہاتھ کٹے ہیں مشقتوں کے عوض
خموش رہ کے بھی میں گفتگو کروں ان سے
نگاہ وہ مری پڑھ لیں سماعتوں کے عوض
گھروں میں شمع کی صورت وہ روشنی کر کے
پگھل رہا ہے ہر اک پل تمازتوں کے عوض
نہ پوچھو باپ سے اپنے کبھی شب ہجرت
ملے گا کیا تمہیں ان کی وصیتوں کے عوض
پلٹ کے ہم نے بھی اک بار پھر نہیں دیکھا
فلک جو بیچ دیئے ہم نے کل چھتوں کے عوض
میں جی بھی جاؤں تو تنہائی مجھ کو ڈس لے گی
چہار سمت مقاتل ہیں قربتوں کے عوض
اے کاش میرا بھی ہمدرد ہو کوئی شاربؔ
مجھے رہائی دلائے ضمانتوں کے عوض
غزل
ملے ہیں درد ہی مجھ کو محبتوں کے عوض
شارب مورانوی