EN हिंदी
ملے ہیں درد ہی مجھ کو محبتوں کے عوض | شیح شیری
mile hain dard hi mujhko mohabbaton ke ewaz

غزل

ملے ہیں درد ہی مجھ کو محبتوں کے عوض

شارب مورانوی

;

ملے ہیں درد ہی مجھ کو محبتوں کے عوض
صلے میں ہاتھ کٹے ہیں مشقتوں کے عوض

خموش رہ کے بھی میں گفتگو کروں ان سے
نگاہ وہ مری پڑھ لیں سماعتوں کے عوض

گھروں میں شمع کی صورت وہ روشنی کر کے
پگھل رہا ہے ہر اک پل تمازتوں کے عوض

نہ پوچھو باپ سے اپنے کبھی شب ہجرت
ملے گا کیا تمہیں ان کی وصیتوں کے عوض

پلٹ کے ہم نے بھی اک بار پھر نہیں دیکھا
فلک جو بیچ دیئے ہم نے کل چھتوں کے عوض

میں جی بھی جاؤں تو تنہائی مجھ کو ڈس لے گی
چہار سمت مقاتل ہیں قربتوں کے عوض

اے کاش میرا بھی ہمدرد ہو کوئی شاربؔ
مجھے رہائی دلائے ضمانتوں کے عوض