ملا کے ہاتھ مسرت کشید کی جائے
وہ سامنے نظر آئے تو عید کی جائے
جنون عشق کہاں ناپ تول جانے ہے
اگر ہوئی ہے محبت شدید کی جائے
وہاں تو امن کے سجدوں کی نور پاشی تھی
کہا تھا کس نے کہ مسجد شہید کی جائے
چلن وفا کا تمہاری سرشت میں ہی نہیں
تو کس امید پہ تم سے امید کی جائے
خلوص و پیار سے پتھر پگھلتے دیکھے ہیں
انا ہے دشمن جاناں مرید کی جائے
روایتوں کا بھی اپنا مزاج ہے فاروقؔ
غزل ضروری نہیں ہے جدید کی جائے

غزل
ملا کے ہاتھ مسرت کشید کی جائے
فاروق رحمان