EN हिंदी
ملا کر خاک میں پھر خاک کو برباد کرتے ہیں | شیح شیری
mila kar KHak mein phir KHak ko barbaad karte hain

غزل

ملا کر خاک میں پھر خاک کو برباد کرتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

;

ملا کر خاک میں پھر خاک کو برباد کرتے ہیں
غریبوں پر ستم کیا کیا ستم ایجاد کرتے ہیں

ہزاروں دل جلا کر غیر کا دل شاد کرتے ہیں
مٹا کر سیکڑوں شہر ایک گھر آباد کرتے ہیں

موذن کو بھی وہ سنتے نہیں ناقوس تو کیا ہے
عبث شیخ و برہمن ہر طرف فریاد کرتے ہیں

حسینوں کی محبت کا نہ کر کچھ اعتبار اے دل
یہ ظالم کس کے ہوتے ہیں یہ کس کو یاد کرتے ہیں

وہی شاگرد پھر ہو جاتے ہیں استاد اے جوہرؔ
جو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں