EN हिंदी
ملا جو خار تو دل میں بٹھا لیا میں نے | شیح شیری
mila jo Khaar to dil mein biTha liya maine

غزل

ملا جو خار تو دل میں بٹھا لیا میں نے

سید محمد ظفر اشک سنبھلی

;

ملا جو خار تو دل میں بٹھا لیا میں نے
ہر ایک پھول سے دامن بچا لیا میں نے

نظر میں ان کا سراپا بسا لیا میں نے
غم فراق کو آساں بنا لیا میں نے

نہ پوچھ مجھ سے مرے فرط شوق کا عالم
ہر ایک غم کو ترا غم بنا لیا میں نے

بھڑک کے بجھ گیا جب اس کا ہر ایک دیا
چراغ دل کو شب غم جلا لیا میں نے

یہ کیا خبر تھی دہکتے ہوئے ہیں انگارے
سمجھ کے پھول جنہیں سر چڑھا لیا میں نے

فریب کار رفیقوں کی اب نہیں حاجت
کہ اپنے سینے سے غم کو لگا لیا میں نے

سمجھ لیا جسے اوروں نے اشکؔ نا ممکن
اسی کو اپنی تمنا بنا لیا میں نے