EN हिंदी
ملا ہے تخت کسے کون تخت پر نہ رہا | شیح شیری
mila hai taKHt kise kaun taKHt par na raha

غزل

ملا ہے تخت کسے کون تخت پر نہ رہا

ماجد صدیقی

;

ملا ہے تخت کسے کون تخت پر نہ رہا
یہ بات اور ہے جاری تھا جو سفر نہ رہا

شب سیاہ میں بھی جو تھا روشنی کا سفیر
کنار بام سے وہ جھانکتا قمر نہ رہا

لگی تھیں جس پہ نگاہیں نہ جانے کس کس کی
مریض پر وہی تعویذ کار گر نہ رہا

یقیں تھا جو بھی وہ اب گرد اشتباہ میں ہے
یہ کیا ہوا کہ کوئی شخص معتبر نہ رہا

بڑے بڑوں پہ بھی ماجدؔ بہ نام ارض وطن
جو اعتماد تھا القصہ مختصر نہ رہا