ملا ہے تخت کسے کون تخت پر نہ رہا
یہ بات اور ہے جاری تھا جو سفر نہ رہا
شب سیاہ میں بھی جو تھا روشنی کا سفیر
کنار بام سے وہ جھانکتا قمر نہ رہا
لگی تھیں جس پہ نگاہیں نہ جانے کس کس کی
مریض پر وہی تعویذ کار گر نہ رہا
یقیں تھا جو بھی وہ اب گرد اشتباہ میں ہے
یہ کیا ہوا کہ کوئی شخص معتبر نہ رہا
بڑے بڑوں پہ بھی ماجدؔ بہ نام ارض وطن
جو اعتماد تھا القصہ مختصر نہ رہا

غزل
ملا ہے تخت کسے کون تخت پر نہ رہا
ماجد صدیقی