ملا ہے جسم کہ اس کا گماں ملا ہے مجھے
وہ ہاتھ آ کے بھی اکثر کہاں ملا ہے مجھے
میں صرف دیکھ ہی سکتا ہوں چشم ساحل سے
کہ وہ بدن عجب آب رواں ملا ہے مجھے
فروخت کر کے خسارے میں آ گیا بازار
تو سوچ لو کہ وہ کتنا گراں ملا ہے مجھے
اچانک آج مرا زخم بات کرنے لگا
بہت دنوں میں کوئی ہم زباں ملا ہے مجھے
ہمیشہ دیر سے پہنچا میں اس کی محفل میں
بجائے آگ ہمیشہ دھواں ملا ہے مجھے
عجب کشاکش ایمان و کفر رہتی ہے
وہ بت ہمیشہ بہ وقت اذاں ملا ہے مجھے
الٹ کے رکھ دیا احساسؔ نے حساب عمر
وہ روز کل سے زیادہ جواں ملا ہے مجھے

غزل
ملا ہے جسم کہ اس کا گماں ملا ہے مجھے
فرحت احساس