ملا دئے خاک میں خدا نے پلک کے لگتے ہی شاہ لاکھوں
جنہوں کے ادنیٰ غلام رکھتے تھے اپنے چاکر سپاہ لاکھوں
نماز و روزے زکوٰۃ و حج پر نہیں ہے موقوف کچھ اے زاہد
جدھر کو جاوے اُدھر کو ہیں گے خدا کے ملنے کے راہ لاکھوں
سنا ہے میں نے کہ تو نے میرا کیا ہے شکوہ کسی سے ظالم
ترے ستم اور مری وفا کے جہاں میں ہیں گے گواہ لاکھوں
عجب تماشا ہے کس سے کہیے اثر نہیں سنگ دل کے دل میں
کروں ہوں یارو میں ایک دم میں ہزاروں نالے و آہ لاکھوں
کرے ہے فریاد ایک عالم گلی میں اس کی ہے شور محشر
جو ایک ہوئے تو کیجے انصاف اس کے ہیں داد خواہ لاکھوں
کروڑ باری میں سو طرح سے کہا کہ کھا اور کھلا نہ مانا
کوئی تو لیوے گا چھین تجھ سے تو جوڑ خست پناہ لاکھوں
یہ مصرع سوز سن کے حاتمؔ کہے ہے ناصح سے اے عزیزو
امید بخشش ہے جب سے ہم کو کیے ہیں ہم نے گناہ لاکھوں
غزل
ملا دئے خاک میں خدا نے پلک کے لگتے ہی شاہ لاکھوں
شیخ ظہور الدین حاتم