مل مل کے دوستوں نے وہ دی ہے دغا مجھے
اب خود پہ بھی نہیں ہے گمان وفا مجھے
اف ابتدائے شوق کی معصوم جستجو
ہر پھول تھا چمن میں ترا نقش پا مجھے
اے کھنچنے والے دیکھ مری بے پناہیاں
آتی ہے دشمنوں سے بھی بوئے وفا مجھے
دنیا تمہیں عزیز ہے میرے سوا مگر
عالم ہے نا پسند تمہارے سوا مجھے
کرتی نہیں عبور تمہیں میری جستجو
کیا کر دیا ہے تم نے یہ کیا ہو گیا مجھے
وضعاً بھی ہنس پڑا ہوں تو پھر دل سے مدتوں
آئی کراہنے کی صدا پر صدا مجھے
پھر بات بات میں ہے لچک التفات کی
کیا پھر دکھاؤ گے کوئی خواب وفا مجھے
یہ ہے فغاں کا زور تو پھر وہ چکا قفس
کر دے گی میری شعلہ نوائی رہا مجھے
کوتاہیٔ نظر سے احاطہ نہ ہو سکا
ملنے کو یوں ملا ہے بتوں میں خدا مجھے
میری وفا پہ آپ ہی چیں بر جبیں نہیں
میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا ہو گیا مجھے
جس مدعائے شوق کی دریافت ہیں حضور
مایوس کر رہا ہے وہی مدعا مجھے
اک ضیق اک عذاب اک اندوہ اک تڑپ
تم نے یہ دل کے نام سے کیا دے دیا مجھے
ان کو گنوا کے حال رہا ہے یہ مدتوں
آیا خیال بھی تو بڑا غم ہوا مجھے
افلاس کے شباب مقدس میں بارہا
آیا ہے پوچھنے مرے گھر پر خدا مجھے
احسانؔ اپنے وقت پہ موت آئے گی مگر
جینے کا مشورہ نہیں دیتی فضا مجھے
غزل
مل مل کے دوستوں نے وہ دی ہے دغا مجھے
احسان دانش