مل کر صنم سے اپنے ہنگام دل کشائی
ہنس کر کہا یہ ہم نے اے جاں بسنت آئی
سنتے ہی اس پری نے گل گل شگفتہ ہو کر
پوشاک زر فشانی اپنی وہیں رنگائی
جب رنگ کے آئی اس کے پوشاک پر نزاکت
سرسوں کی شاخ پر کل پھر جلد اک منگائی
اک پنکھڑی اٹھا کر نازک سے انگلیوں میں
رنگت کو اس کی اپنی پوشاک سے ملائی
جس دم کیا مقابل کسوت سے اپنی اس کو
دیکھا تو اس کی رنگت اس پر ہوئی سوائی
پھر تو بصد مسرت اور سو نزاکتوں سے
نازک بدن پہ اپنے پوشاک وہ کھپائی
غزل
مل کر صنم سے اپنے ہنگام دل کشائی
نظیر اکبرآبادی