EN हिंदी
مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم | شیح شیری
mil kar juda hue to na soya karenge hum

غزل

مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم

قتیل شفائی

;

مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم
اک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم

آنسو جھلک جھلک کے ستائیں گے رات بھر
موتی پلک پلک میں پرویا کریں گے ہم

جب دوریوں کی آگ دلوں کو جلائے گی
جسموں کو چاندنی میں بھگویا کریں گے ہم

بن کر ہر ایک بزم کا موضوع گفتگو
شعروں میں تیرے غم کو سمویا کریں گے ہم

مجبوریوں کے زہر سے کر لیں گے خودکشی
یہ بزدلی کا جرم بھی گویا کریں گے ہم

دل جل رہا ہے زرد شجر دیکھ دیکھ کر
اب چاہتوں کے بیج نہ بویا کریں گے ہم

گر دے گیا دغا ہمیں طوفان بھی قتیلؔ
ساحل پہ کشتیوں کو ڈبویا کریں گے ہم