میر مجلس رنداں آج وہ شرابی ہے
خون دل جسے میرا بادۂ گلابی ہے
دل کو سخت بیتابی چشم کو بے خوابی ہے
ہجر میں ترے ظالم یہ یہ کچھ خرابی ہے
عیش چاہئے جو کچھ سو تو آج ہے موجود
جام و مے ہے ساقی ہے سیر ماہتابی ہے
صبح ہونے دے ٹک تو رات ہے ابھی باقی
تجھ کو گھر کے جانے کی ایسی کیا شتابی ہے
ہم ہیں اور تم ہو یاں غیر تو نہیں کوئی
آ گلے سے لگ جاؤ وقت بے حجابی ہے
تیرے اے پری پیکر سینے پر نہیں پستاں
طاق حسن پر گویا شیشۂ حبابی ہے
کیوں نہ بزم میں بیدارؔ ہووے قابل تحسیں
ہر یک اس غزل کے بیچ شعر انتخابی ہے
غزل
میر مجلس رنداں آج وہ شرابی ہے
میر محمدی بیدار