میری وحشت کا ترے شہر میں چرچا ہوگا
اب مجھے دیکھ کے شاید تجھے دھوکا ہوگا
صاف رستہ ہے چلے آؤ سوئے دیدہ و دل
عقل کی راہ سے آؤ گے تو پھیرا ہوگا
کون سمجھے گا بھلا حسن گریزاں کی ادا
میرے عیسیٰ نے مرا حال نہ پوچھا ہوگا
وجہ بے رنگیٔ ہر شام و سحر کیا ہوگی
میں نے شاید تجھے ہر رنگ میں دیکھا ہوگا
اب کہیں تو ہی ڈبووے ہمیں اے موج سراب
ورنہ پھر شکوۂ پایابی دریا ہوگا
کوئی تدبیر بتا اے دل آزار پسند
اس کو جی جاں سے بھلانے میں تو عرصہ ہوگا
حسن کی خلوت سادہ بھی ہے صد بزم طراز
عشق محفل میں بھی ہوگا تو اکیلا ہوگا
جھٹپٹا چھایا ہے کون آیا ہے دروازے پر
دیکھنا شاذؔ کوئی صبح کا بھولا ہوگا

غزل
میری وحشت کا ترے شہر میں چرچا ہوگا
شاذ تمکنت