EN हिंदी
میری تجھ سے کیا ٹکر ہے | شیح شیری
meri tujhse kya Takkar hai

غزل

میری تجھ سے کیا ٹکر ہے

سوربھ شیکھر

;

میری تجھ سے کیا ٹکر ہے
میں اک شے تو سوداگر ہے

خوابو تم آہستہ آنا
میری نیند کا پل جرجر ہے

غافل رہنے دو بچوں کو
پھر تو آگے ڈر ہی ڈر ہے

دکھیاروں کی اس بستی کے
ہر گھر میں اک پوجا گھر ہے

شام میں دن تبدیل ہوا اب
اب ہر سایہ قد آور ہے

اچھے موڈ میں ہے وہ دل کی
کہنے کا اچھا اَوسر ہے

ہاتھ ملاؤ اہل محبت
نفرت کافی طاقت ور ہے

سچ مت بولو اس پاگل سے
اس کے ہاتھوں میں پتھر ہے

غیبت کی اس آب و ہوا میں
سوربھؔ کا رہنا دوبھر ہے