میری نظر نظر میں ہیں منظر جلے ہوئے
ابھریں گے حرف حرف سے پیکر جلے ہوئے
شعلوں کا رقص آب رواں تک پہنچ گیا
دریا پہ بہہ کے آئے ہیں چھپر جلے ہوئے
ہر ذرہ اس زمین کا لو دے رہا ہے آج
کل آپ کو ملیں گے سمندر جلے ہوئے
مظلوم و بے قصور جنہیں کہہ رہے ہیں آپ
نکلے ہیں ان کے گھر سے بھی خنجر جلے ہوئے
آنکھوں کی اس جلن سے نا مل پائے گی نجات
دیکھے ہیں میری آنکھوں نے منظر جلے ہوئے
ڈرنے لگے ہیں آگ سے آتش پرست بھی
دیکھے ہیں جب سے چاروں طرف سر جلے ہوئے
بے خواب وحشتوں کو سلانے کے واسطے
آراستہ ہیں آج بھی بستر جلے ہوئے
غزل
میری نظر نظر میں ہیں منظر جلے ہوئے
مشیر جھنجھانوی