EN हिंदी
میری مٹی کا نسب بے سر و سامانی سے | شیح شیری
meri miTTi ka nasab be-sar-o-samani se

غزل

میری مٹی کا نسب بے سر و سامانی سے

فرحت احساس

;

میری مٹی کا نسب بے سر و سامانی سے
کام کچھ اس کو ہوا سے نہ طلب پانی سے

میرے اطراف نگاہوں کی یہ دیوار نہ کھینچ
اور آوارہ ہوا جاتا ہوں نگرانی سے

اپنے آئینے سے توڑ آ کے مرا آئینہ
اپنے آئینے کو بھر کر مری حیرانی سے

ہم جو اک عمر لگا دیتے ہیں پاس آنے میں
کیسے لمحوں میں بچھڑ جاتے ہیں آسانی سے

ہے یہی وقت کہ پتھر سے خدا پیدا ہو
دیکھ اب نور ٹپکنے لگا پیشانی سے

عشق کو ہے یہی اک صورت اظہار نصیب
جو بھی کہنا ہے کہے چاک گریبانی سے

شہر ہو جاتا ہے پہلے تو جنون ناکام
توڑتا ہے پھر اسے سنگ بیابانی سے

فرحتؔ احساس اسی جہل سے کر پھر سے رجوع
تیرے حق میں یہی بہتر ہے ہمہ دانی سے