میری خواہش نہ سہی تیرا ارادہ ہے ضرور
سخت مشکل ہے کہ تجھ سا مجھے ہونا ہے ضرور
کون سا رنج ہوا ہوش نہیں ہے لیکن
اپنے ناخن سے ہی کھرچا ہوا سینہ ہے ضرور
اب وہ پہلی سی فضاؤں میں کدورت نہ رہی
ہاں مری آنکھ میں ہلکا سا دھندلکا ہے ضرور
ہم کو اس دور کی تاریخ تو لکھنی ہوگی
ایک چھوٹا سا قلم ہی سہی اپنا ہے ضرور
رعب اس لفظ کا رہتا ہے مسلط اشہرؔ
بے نیازی میں بھی معبود جو میرا ہے ضرور
غزل
میری خواہش نہ سہی تیرا ارادہ ہے ضرور
اقبال اشہر قریشی