میری دعا کہ غیر پہ ان کی نظر نہ ہو
وہ ہاتھ اٹھا رہے ہیں کہ یا رب اثر نہ ہو
ہم کو بھی ضد یہی ہے کہ تیری سحر نہ ہو
اے شب تجھے خدا کی قسم مختصر نہ ہو
تم اک طرف تمہاری خدائی ہے اک طرف
حیرت زدہ ہے دل کہ کدھر ہو کدھر نہ ہو
دشوار تر بھی سہل ہے ہمت کے سامنے
یہ ہو تو کوئی ایسی مہم ہے کہ سر نہ ہو
جب وہ نہ آئے فاتحہ پڑھنے تو اے صبا
باز آ گیا میں شمع بھی اب نوحہ گر نہ ہو
یہ کہہ کے دیتی جاتی ہے تسکیں شب فراق
وہ کون سی ہے رات کہ جس کی سحر نہ ہو
بسملؔ بتوں کا عشق مبارک تمہیں مگر
اتنے نڈر نہ ہو کہ خدا کا بھی ڈر نہ ہو
غزل
میری دعا کہ غیر پہ ان کی نظر نہ ہو
بسملؔ عظیم آبادی