EN हिंदी
میری بربادیوں کی یہ تصویر | شیح شیری
meri barbaadiyon ki ye taswir

غزل

میری بربادیوں کی یہ تصویر

زخمی حصاری

;

میری بربادیوں کی یہ تصویر
گردش وقت کی ہے ایک لکیر

حسن تدبیر کی نگاہوں سے
دیکھ تو اپنے بخت کی تحریر

دور کر دے دلوں کی تاریکی
اے جمال خلوص کی تنویر

تم سمجھتے ہو جن کو میر چمن
زلف حرص و ہوا کے ہیں وہ اسیر

کھا رہا ہوں فریب آزادی
دیکھ کر پاؤں کی نئی زنجیر

جھوٹی توقیر کے لیے اکثر
بیچ دیتے ہیں لوگ اپنا ضمیر

کل بھی آ جائے گا مگر زخمیؔ
کتنی دھندلی ہے آج کی تصویر