میری آہوں سے جلا چاہتا ہے
آسماں رد بلا چاہتا ہے
مجھ کو تو مرضیٔ مولا اولیٰ
اور دل سب کا بھلا چاہتا ہے
برش تیغ نہ میلی ہو جائے
با صفا ہوں وہ گلا چاہتا ہے
آئنہ ہو گیا آئینہ سرشت
یعنی وہ مجھ میں ڈھلا چاہتا ہے
موج در موج گلستاں سارا
میرے دامن پہ کھلا چاہتا ہے
بوریے کو کہا سامان نشاط
دیکھتے رہنا جلا چاہتا ہے
مجھ کو درویش سمجھنے والا
خوش گمانی کا صلا چاہتا ہے
زانوئے شوق سے لگ بیٹھا ہے
آئینہ اپنی جلا چاہتا ہے
نہیں پر شوق کوئی اس کے لئے
حسناتؔ اب تو خلا چاہتا ہے
غزل
میری آہوں سے جلا چاہتا ہے
ابو الحسنات حقی