EN हिंदी
میری آہوں سے جلا چاہتا ہے | شیح شیری
meri aahon se jila chahta hai

غزل

میری آہوں سے جلا چاہتا ہے

ابو الحسنات حقی

;

میری آہوں سے جلا چاہتا ہے
آسماں رد بلا چاہتا ہے

مجھ کو تو مرضیٔ مولا اولیٰ
اور دل سب کا بھلا چاہتا ہے

برش تیغ نہ میلی ہو جائے
با صفا ہوں وہ گلا چاہتا ہے

آئنہ ہو گیا آئینہ سرشت
یعنی وہ مجھ میں ڈھلا چاہتا ہے

موج در موج گلستاں سارا
میرے دامن پہ کھلا چاہتا ہے

بوریے کو کہا سامان نشاط
دیکھتے رہنا جلا چاہتا ہے

مجھ کو درویش سمجھنے والا
خوش گمانی کا صلا چاہتا ہے

زانوئے شوق سے لگ بیٹھا ہے
آئینہ اپنی جلا چاہتا ہے

نہیں پر شوق کوئی اس کے لئے
حسناتؔ اب تو خلا چاہتا ہے