میرے اس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا
اس کے طے کرنے کو بھی اک راستہ رکھا گیا
عکس کھو جائیں اگر ہلکا سا کنکر بھی گرے
پانیوں میں ایک ایسا آئنا رکھا گیا
سب تقاضے ویسے پورے ہو گئے انصاف کے
بس فقط محفوظ میرا فیصلہ رکھا گیا
نارسائی کی اذیت ہی رہی اپنا نصیب
مل گئی روحیں تو جسموں کو جدا رکھا گیا
بھر کے آنکھوں میں سلگتے خواب اس کی یاد کے
مجھ کو سوتے میں بھی حیدرؔ جاگتا رکھا گیا
غزل
میرے اس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا
حیدر قریشی