EN हिंदी
میرے سر سے کیا غرض سرکار کو | شیح شیری
mere sar se kya gharaz sarkar ko

غزل

میرے سر سے کیا غرض سرکار کو

مبارک عظیم آبادی

;

میرے سر سے کیا غرض سرکار کو
دیکھیے اپنے در و دیوار کو

یہ گھٹا ایسی گھٹا اتنی گھٹا
مے حلال ایسے میں ہے مے خوار کو

دھمکیاں دیتے ہو کیا تلوار کی
ہم لگاتے ہیں گلے تلوار کو

اپنی اپنی سب دکھاتے ہیں بہار
گل بھی گلشن سے چلے بازار کو

طاق سے مینا اتار آئی بہار
طاق پر رکھ شیخ استغفار کو

ڈھونڈھتا پھرتا ہے کوئے غیر میں
دل مبارکؔ کو مبارکؔ یار کو