میرے پروانہ کو اب مژدۂ مایوسی ہے
کیونکہ وہ پردہ نشیں شعلۂ فانوسی ہے
ساقیا دست نگاریں سے ترے مینا میں
ہم جو کرتے ہیں نظر جلوۂ طاؤسی ہے
جام لبریز چہکتا ہے ید بیضا سا
یار کے ہاتھ میں کیا معجزۂ موسی ہے
مرتی اس گل پہ ہے بکتا ہے جو کوڑی کوڑی
تجھ پہ مرتی نہیں بلبل بھی کچھ الو سی ہے
اے صنم نالہ و افغاں سے مرے شام و سحر
دل کے بت خانے میں اب نغمۂ ناقوسی ہے
دشت میں چل کہ ہر اک خار بیاباں کو نثارؔ
جوں حنا کب سے تمنائے قدم بوسی ہے
غزل
میرے پروانہ کو اب مژدۂ مایوسی ہے
محمد امان نثار