EN हिंदी
میرے لیے وہ شخص مصیبت بھی بہت ہے | شیح شیری
mere liye wo shaKHs musibat bhi bahut hai

غزل

میرے لیے وہ شخص مصیبت بھی بہت ہے

روحی کنجاہی

;

میرے لیے وہ شخص مصیبت بھی بہت ہے
سچ یہ بھی ہے اس کی مجھے عادت بھی بہت ہے

ملتا ہے اگر خواب میں ملتا تو ہے کوئی
اس کی یہ عنایت یہ مروت بھی بہت ہے

اس نے مجھے سمجھا تھا کبھی پیار کے قابل
خوش رہنا ہو تو اتنی مسرت بھی بہت ہے

الفت کا نبھانا تو بڑی بات ہے لیکن
اس دور میں اظہار محبت بھی بہت ہے

جانے پہ بضد ہے تو کہوں اس کے سوا کیا
اے دوست تری اتنی رفاقت بھی بہت ہے

اک فاصلہ قائم ہے بدستور بہ ہر حال
حاصل مجھے اس شخص کی قربت بھی بہت ہے

جینا تو پڑے گا ہی بغیر اس کے بھی روحیؔ
حالانکہ مجھے اس کی ضرورت بھی بہت ہے