میرے لیے دنیا کے قضایا کو بنایا
تیرے لیے آسائش دنیا کو بنایا
مظروف سے تقدیم کہاں ظرف نے پائی
دل بعد بنا پہلے تمنا کو بنایا
ہوتا چلا آتا ہے زمانہ تہہ و بالا
اعلیٰ کو بگاڑا کبھی ادنیٰ کو بنایا
مے خانہ دنیا میں ہے افراط مے عز
جھکنے کے لیے گردن مینا کو بنایا
ہے گفت و شنید ایسے سے اے رشکؔ کہ جس نے
گوشہ شنوا و لب گویا کو بنایا
غزل
میرے لیے دنیا کے قضایا کو بنایا
میر علی اوسط رشک