EN हिंदी
میرے لیے دنیا کے قضایا کو بنایا | شیح شیری
mere liye duniya ke qazaya ko banaya

غزل

میرے لیے دنیا کے قضایا کو بنایا

میر علی اوسط رشک

;

میرے لیے دنیا کے قضایا کو بنایا
تیرے لیے آسائش دنیا کو بنایا

مظروف سے تقدیم کہاں ظرف نے پائی
دل بعد بنا پہلے تمنا کو بنایا

ہوتا چلا آتا ہے زمانہ تہہ و بالا
اعلیٰ کو بگاڑا کبھی ادنیٰ کو بنایا

مے خانہ دنیا میں ہے افراط مے عز
جھکنے کے لیے گردن مینا کو بنایا

ہے گفت و شنید ایسے سے اے رشکؔ کہ جس نے
گوشہ شنوا و لب گویا کو بنایا