EN हिंदी
میرے لب پر اگر کبھی آئی | شیح شیری
mere lab par agar kabhi aai

غزل

میرے لب پر اگر کبھی آئی

انور تاباں

;

میرے لب پر اگر کبھی آئی
رقص کرتی ہوئی ہنسی آئی

ان کے مجھ پر ستم بڑھے جب سے
درد دل میں بہت کمی آئی

ہنستے ہنستے نکل پڑے آنسو
روتے روتے کبھی ہنسی آئی

رقص کرنے لگے مرے ارماں
یاد جب ان کی جھومتی آئی

مشعل راہ بن کے اے تاباںؔ
ان کے جلووں کی روشنی آئی