EN हिंदी
میرے خوابوں کا کبھی جب آسماں روشن ہوا | شیح شیری
mere KHwabon ka kabhi jab aasman raushan hua

غزل

میرے خوابوں کا کبھی جب آسماں روشن ہوا

ذکی طارق

;

میرے خوابوں کا کبھی جب آسماں روشن ہوا
رہ گزار شوق کا ایک اک نشاں روشن ہوا

اجنبی خوشبو کی آہٹ سے مہک اٹھا بدن
قہقہوں کے لمس سے خوف خزاں روشن ہوا

پھر مرے سر سے تیقن کا پرندہ اڑ گیا
پھر مرے احساس میں تازہ گماں روشن ہوا

جانے کتنی گردنوں کی ہو گئیں شمعیں قلم
تب کہیں جا کر یہ تیرہ خاک داں روشن ہوا

شہر میں زنداں تھے جتنے سب منور ہو گئے
کس جگہ دل کو جلایا تھا کہاں روشن ہوا

جل گیا جب یاس کے شعلوں سے سارا تن ذکیؔ
تب کہیں امید کا دھندلا نشاں روشن ہوا