میرے خورشید و قمر آئے نہیں
ظلمتوں کے چارہ گر آئے نہیں
فصل گل کی خاصیت کو کیا ہوا
شاخ دل پر برگ و بر آئے نہیں
خستہ سامانی ہماری دیکھنے
لوگ آتے تھے مگر آئے نہیں
میں فقط باغوں کا رکھوالا رہا
میرے حصے میں ثمر آئے نہیں
گدلے جوہڑ چیتھڑوں سی بستیاں
اہل دل کیا اس نگر آئے نہیں
غزل
میرے خورشید و قمر آئے نہیں
ضمیر اظہر