میرے ہم راہ ستارے کبھی جگنو نکلے
جستجو میں تری ہر رات مہم جو نکلے
تیری روتی ہوئی آنکھیں ہیں مری آنکھوں میں
ورنہ پتھر میں کہاں جان کہ آنسو نکلے
سانس لینے کی جسارت بھی نہ کر پاؤں گا
جسم سے میرے جو پل بھر کے لئے تو نکلے
اہل دل یونہی تر و تازہ نہیں رکھتے انہیں
زخم بھر جائیں تو ممکن نہیں خوشبو نکلے
ذکر میں تیرے گوارا نہیں اتنا بھی مجھے
ماسوا تیرے کوئی اور بھی پہلو نکلے
تیری چوکھٹ پہ پہنچنا ہے سلامت مجھ کو
جان پیاسے کی جو نکلے تو لب جو نکلے
میں وہ نادان کہ ڈھونڈوں کوئی اپنے جیسا
اور احباب تھے عازمؔ کہ ارسطو نکلے
غزل
میرے ہم راہ ستارے کبھی جگنو نکلے
عین الدین عازم