EN हिंदी
میرے بدن کی آگ ہی جھلسا گئی مجھے | شیح شیری
mere badan ki aag hi jhulsa gai mujhe

غزل

میرے بدن کی آگ ہی جھلسا گئی مجھے

نشتر خانقاہی

;

میرے بدن کی آگ ہی جھلسا گئی مجھے
دیکھا جو آئنہ تو ہنسی آ گئی مجھے

میری نمود کیا ہے بس اک تودۂ سیاہ
کوندی کبھی جو برق تو چمکا گئی مجھے

جیسے میں اک سبق تھا کبھی کا پڑھا ہوا
اٹھی جو وہ نگاہ تو دہرا گئی مجھے

ہر صبح میں نے خود کو بہ مشکل بہم کیا
آئی جو غم کی رات تو بکھرا گئی مجھے

میں دشت آرزو پہ گھٹا بن کے چھا گیا
گرمی ترے وجود کی برسا گئی مجھے

یہ فرط انتظار ہے یا شدت ہراس
خاموشیوں کی چاپ بھی چونکا گئی مجھے

تیری نظر بھی دے نہ سکی زندگی کا فن
مرنے کا کھیل سہل تھا سکھلا گئی مجھے