EN हिंदी
میرے بعد اور کوئی مجھ سا نہ آیا ہوگا | شیح شیری
mere baad aur koi mujh sa na aaya hoga

غزل

میرے بعد اور کوئی مجھ سا نہ آیا ہوگا

قیصر صدیقی

;

میرے بعد اور کوئی مجھ سا نہ آیا ہوگا
اس کے دروازے پہ اب تک مرا سایہ ہوگا

جب بھی آئینہ نے منہ اس کو چڑھایا ہوگا
کیسے خوابوں کی حقیقت کو چھپایا ہوگا

اس نے بھرپور نظر جس پہ بھی ڈالی ہوگی
چاند نے اس کو کلیجے سے لگایا ہوگا

کس طرح قتل کیا ہوگا مری یادوں کو
کتنی مشکل سے مجھے اس نے بھلایا ہوگا

جب چلی ہوگی کہیں بات کسی شاعر کی
اس کے ہونٹوں پہ مرا نام تو آیا ہوگا

جو مرے بارے میں سوچے گا ہر اک پہلو سے
وہ مرا اپنا نہیں ہوگا پرایا ہوگا

اس کی پلکوں کا تبسم یہ پتہ دیتا ہے
اس نے آنکھوں میں کوئی خواب سجایا ہوگا

سوچتا ہوں کہ وہ انسان بہ نام ہستی
کیسے انگاروں کی بارش میں نہایا ہوگا

زندگی اس کی سلگتا ہوا صحرا ہوگی
جو تری آنکھوں پہ ایمان نہ لایا ہوگا

تیری آنکھوں میں سمایا ہے جو رنگوں کی طرح
ہو نہ ہو میرے خیالات کا سایہ ہوگا

تم نے قیصرؔ مرے احساس کے ویرانے میں
میرے خوابوں کو تڑپتا ہوا پایا ہوگا