میرے اور اپنے درمیاں اس نے
کتنا پھیلا دیا دھواں اس نے
خود بلاتی تھی منزل مقصود
طے نہ کیں اپنی دوریاں اس نے
جن سے پہچان تھی کبھی اس کی
کھو دیے ہیں وہ سب نشاں اس نے
جھوٹ بولا نہیں گیا اس سے
کر لیا خود کو بے زباں اس نے
بے خبر ہے وہ موسموں سے شجرؔ
بند کر لی تھیں کھڑکیاں اس نے

غزل
میرے اور اپنے درمیاں اس نے
سریندر شجر