EN हिंदी
میرے اندر جو اک فقیری ہے | شیح شیری
mere andar jo ek faqiri hai

غزل

میرے اندر جو اک فقیری ہے

اجے سحاب

;

میرے اندر جو اک فقیری ہے
یہ ہی سب سے بڑی امیری ہے

کچھ نہیں ہے مگر سبھی کچھ ہے
دیکھ کیسی جہان گیری ہے

پنکھڑی اک گلاب کے جیسی
میرے شعروں میں ایسی میری ہے

شعر کہتا ہے بیچ دیتا ہے
تجھ میں کیسی یہ لا ضمیری ہے

تجھ سے رشتہ کبھی نہیں سلجھا
اس کی فطرت ہی کاشمیری ہے

روح اور جسم سرخ ہیں خوں سے
پھر بھی یہ پیرہن حریری ہے