EN हिंदी
میرا تن سر سے جدا کرتے ہی بے کل ہو گیا | شیح شیری
mera tan sar se juda karte hi bekal ho gaya

غزل

میرا تن سر سے جدا کرتے ہی بے کل ہو گیا

نسیم عباسی

;

میرا تن سر سے جدا کرتے ہی بے کل ہو گیا
وہ ادھورا رہ گیا اور میں مکمل ہو گیا

حسن کی تاویل میں بس اتنی تبدیلی ہوئی
ٹاٹ کا ٹکڑا ترے شانوں پہ مخمل ہو گیا

پہلے گہرے پانیوں میں اس کی بود و باش تھی
اب ہوا کے دوش پر آیا تو بادل ہو گیا

پھول کی اک ضرب سے آنسو نکل آئے مرے
ایک ہلکی بات کا احساس بوجھل ہو گیا

وقت کی نبضوں پہ اس کا ہاتھ بھی کمزور تھا
سانس کی رفتار پر میں بھی مسلسل ہو گیا

اس قدر مانوس تھی خلقت اندھیرے سے نسیمؔ
روشنی پھوٹی تو سارا شہر پاگل ہو گیا